Wednesday, April 28, 2010

بی بی سی کی خبروں پر مستقل پابندی


پاکستان کے وزیرِاطلاعات قمر زمان کائرہ نے بی بی سی اردو سروس کے چونتیس میں سے چوبیس ایف ایم پارٹنر چینلز کو اردو سروس کے پانچ منٹ دورانیے کے نیوز بلیٹن نشر کرنے کی تحریری اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان پارٹنر سٹیشنز کو پچھلے مہینے کی ستائیس تاریخ کو یہ کہہ کر بی بی سی کی خبریں نشر کرنے سے روکا گیا تھا کہ کاغذی کارروائی کے مکمل ہونے تک وہ بی بی سی کی خبریں نشرکرنا بند کر دیں۔ وفاقی وزیر کے اس فیصلے کے بعد اب بی بی سی کی خبریں چونتیس میں سے صرف دس ایف ایم چینلز پر چل رہی ہیں جنہیں وزارت اطلاعات نے پچھلے سال ہی تحریری اجازت دی تھی۔

یہ اجازت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس پالیسی کے تحت دی گئی تھی جس کے مطابق حکومت نے خود کو میڈیا کی مکمل آزادی کا ضامن ٹھہرایا تھا۔

اس کے ساتھ ہی بی بی سی سے کہا گیا تھا کہ تمام نئے ایف ایم پارٹنر چینلز کو بھی تحریری اجازت دے دی جائے گی مگر حکومتی پالیسی کے پیش نظر یہ محض ایک رسمی کارروائی ہے اور کارروائی مکمل ہونے تک تمام پارٹنر ایف ایم چینلز بی بی سی کی خبریں چلانے میں آزاد ہیں۔

بی بی سی اردو سروس نے حکومتی پالیسی کے تحت مزید چوبیس پارٹنر چینلز کو پانچ منٹ دورانیے کے خبریں فراہم کرنا شروع کر دیں جنہیں ایف ایم کے سامعین سے زبردست پذیرائی ملی۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے کہنے پر بی بی سی کے تمام پارٹنر چینلز نے تحریری اجازت کے لیے تمام ضروری کاغذات پچھلے سال اکتوبر میں پیمرا کے دفتر جمع کرا دیے تھے۔ لیکن بی بی سی کے نمائندے نے جب بھی پیمرا سے اس بارے میں استفسار کیا یہی جواب ملا کہ ’آپ کی خبریں چل رہی ہیں، تحریری اجازت سے کیا فرق پڑتا ہے‘۔

پچھلے ماہ ستائیس مارچ کو اچانک بی بی سی کے ان چوبیس پارٹنر چینلز سے فوری طور پر بی بی سی کی خبریں بند کرنے کے لیے کہا گیا۔

جب پیمرا سے رابطہ کیا گیا تو بی بی سی کو بتایا گیا کہ اب تحریری اجازت کے بغیر کسی ایف ایم چینل کو بی بی سی کی خبریں نہیں چلانے دی جائیں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ جیسے ہی وفاقی وزیر برائے اطلاعات کو وقت ملے گا وہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔

تاہم کئی روز تک وزیر اطلاعات کی مصروفیت کو وجہ بنا کر بی بی سی کے نمائندے کو ٹالا جاتا رہا۔

آخرکار پچھلے جمعہ کو بی بی سی کے نمائندے سے اسلام آباد آنے کو کہا گیا جہاں منگل کی دوپہر اسے بتایا گیا کہ اب کسی اور ایف ایم چینل کو بی بی سی کی خبریں نشر کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

پاکستانی ایف ایم چینلز سے بی بی سی اردو سروس کی خبراں کی نشریات پر پہلی مرتبہ پابندی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں لگائی گئی تھی۔ اس پابندی کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سندھ ہائی کورٹ نے بی بی سی کے پارٹنر چینلز کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بی بی سی کی نشریات پر پابندی غیر قانونی ہے۔

اس فیصلے کی بنیاد پر بی بی سی اردو سروس کے پارٹنر چینلز پربی بی سی کی خبریں چلنی شروع ہوگئیں۔

تین نومبر دو ہزار سات کو لگنے والی ایمرجنسی کی وجہ سے پھر سے بی بی سی کی نشریات روک دی گئیں۔ لیکن فروری دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد وفاقی وزارت اطلاعات نے فوری طور پر یہ پابندی ہٹا کر بی بی سی کی خبریں ایف ایم چینلز پر دوبارہ چلانے کی اجازت دے دی تھی۔

اس وقت کی وزیر اطلاعات شیری رحمان نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ایک جمہوری حکومت ہے اور وہ میڈیا پر کسی قسم کی پابندی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

وفاقی وزارت اطلاعات کے تازہ فیصلے نے حکومت کی میڈیا پالیسی سے متعلق دوبارہ ابہام پیدا کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر اطلاعات کے اس بیان پر بھی تشویش ظاہر کی ہے جس میں انہوں نے پیمرا کے ذریعے میڈیا پر ایک سرکاری ظابطہ اخلاق بافذ کرنے کا اشارہ کیا تھا۔

No comments:

Post a Comment