Friday, May 28, 2010

لاہور میں احمدی مراکز پر حملے، 42 ہلاک

لاہور میں مختلف مقامات پر احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر مسلح افراد نے حملہ کیا ہے دستی بم پھینکے ہیں اور فائرنگ کی ہے جس سے بیالیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق مسلح افراد نے دنوں عبادت گاہوں میں موجود احمدیوں کو یرغمال بنالیا ہے۔

حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایمبولنس سروس کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملوں میں تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لاہور انتظامیہ اور ریسکیو کے عملے کے ایک اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ حملوں کا نشانہ بننے والے ایک مرکز میں سولہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ حملوں کا نشانے بننے والے ایک مرکز میں بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حملوں میں چالیس افراد زخمی بھی ہوئی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق یہ حملہ بیک وقت دوپہر تقریبادو بجے کیے گئے۔

پہلے دستی بموں کے حملے ہوئے اس ساتھ ہی مسلح افراد ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں احمدیوں کی عبادت گاہوں میں داخل ہوگئے۔

یہ دونوں عبادت گاہیں ایک دوسرے سے کوئی پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں اور احمدی یہاں پر جمعہ کی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے جب حملہ آور اندر داخل ہوئے۔

ان واقعات میں چند افراد کی ہلاکت اور زخمی کی اطلاعات ملی ہیں لیکن ابھی سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے مقابلے کے بعد عبادت گاہ میں سے احمدیوں کو نکال لیا گیا ہے۔انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس طارق سلیم ڈوگر نے گڑھی شاہو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماڈل ٹاؤن میں صورتحال بڑی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ ایک شدت پسند مارا گیا ہے اور دو گرفتار ہوگئے ہیں ان میں سے ایک زخمی حالت میں ہے۔

جناح ہسپتال کے مطابق عملے کے مطابق بیس کے قریب زخمی اور ہلاک ہسپتال لائے گئے اور تمام کے جسم پر گولیاں لگنے کے زخم ہیں۔

آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح شہریوں کو بحفاظت عبادت گاہوں سے باہر نکالنا ہے۔گڑھی شاہوپولیس آپریشن کے لیے بکتر بند گاڑیاں بھی پہنچ گئی ہیں اور پولیس اہلکار ان کے ذریعے عبادت گاہ کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

پاکستان میں جماعت احمدیہ کو سنہ انیس سو تہتر میں پارلیمان نے غیر مسلم قرار دیدیا تھا اور بعد میں جنرل ضیاءالحق کےدور میں آنے والے ایک نئے قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان پر مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔جماعت احمدیہ کا ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے اراکین کو پاکستان میں شدید مذہبی تعصب کا سامنا ہے اور متعدد بار ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہوچکے ہیں اور ہر سال ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں احمدیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment