Thursday, May 6, 2010

کیا اس بار برطانوی پارلیمان معلق ہوگی؟


برطانیہ کی لمبی انتخابی تاریخ میں معلق پارلیمنٹ یا اقلیتی حکومتوں کی چند ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ عام طور پر برطانوی عوام کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت کے ساتھ چنتے ہیں


چھ مئی کو ہونے والے برطانوی انتخابات سے متعلق تازہ ترین رائے عامہ کے جائزوں میں واضح اشارے ملے ہیں کہ منتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔ یعنی ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔

کسی بھی ایک جماعت کے لیے واضح اکثریت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ یا تو لیبر پارٹی اپنی موجودہ انتخابی صورتحال میں ڈرامائی بہتری لے کر آئے یا پھر کنزروٹیو پارٹی جسے ٹوری بھی کہا جاتا ہے برطانوی انتخابی تاریخ میں ووٹروں کو ایک بینظیر قلابازی پر مائل کریں۔

لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں معلق پارلیمنٹ صرف ایک دفعہ بنی۔ اسی لیے برطانوی عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی مقننہ پسند نہیں کرتے۔

تو معلق پارلیمنٹ ہوتی کیا ہے اور برطانوی ایسا کیوں نہیں چاہتے۔ بی بی سی نے انتخابات سے متعلق اس طرح کے کئی سوالات کا جواب تلاش کیا ہے۔
معلق پارلیمنٹ ہوتی کیا ہے

یہ ایک ایسی پارلیمنٹ ہوتی ہے جس میں کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ اس صورت میں قائم ہونے والی حکومت اپنی مرضی اور منشور کے مطابق قوانین بنانے کی بجائے اکثریتی ووٹ کے لیے دوسری جماعتوں کی محتاج ہوتی ہے۔

چھ مئی کے انتخابات میں برطانوی پارلیمنٹ کی نشستیں نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے 646 سے بڑھ کر 650 ہو جائیں گی۔ یوں کسی بھی جماعت کو اکثریت کے لیے 326 نشستیں درکار ہوں گی۔

لیکن یہ اتنا سیدھا حساب بھی نہیں۔ مثلاً سپیکر اور ان جیسے چند عہدوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ موجودہ پارلیمنٹ میں آئرش جماعت شِن فین کے پانچ نمائندوں نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے سے انکار کیا ہے اور نتیجتاً ان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔

لیکن اگر ان الجھنوں سے قطع نظر صرف موجودہ صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو لیبر پارٹی صرف چوبیس سیٹیں کھونے سے اپنی اکثریت کھو بیٹھے گی جبکہ ٹوری پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے ایک سو سولہ نشستیں مزید جیتنی ہونگی۔ اس کے درمیان کسی بھی صورت میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔
معلق پارلیمنٹ بننے سے ہوتا کیا ہے

موجودہ وزیر اعظم اپنے عہدے پر قائم رہتا ہے جبتک وہ استعفٰی نہ دے۔ وہ یا خود مستعفی ہو سکتا ہے یا اپنے عہدے پر قائم رہ کر حکومت بنانے کی کوششیں جاری رکھ سکتا ہے۔

معلق پارلیمنٹ کی صورت میں ایک بڑی جماعت کسی دوسری چھوٹی جماعت کے ساتھ مل کر ہی حکومت بنا سکتی ہے جس کے لیے اسے چھوٹی جماعت کو کابینہ میں شامل کرنا پڑتا ہے اور کئی پالیسی معاملات میں اپنے منشور میں بھی اپنی حلیف جماعت کی منشا کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔

کچھ ملکوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ چھوٹی جماعتیں مخلوط حکومت کا حصہ بننے کی بجائے اس سے معاہدہ کر لیتی ہیں کہ وہ حکومت گرانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گی اور یوں ایک اقلیتی حکومت بن جاتی ہے۔

ایک امکان یہ بھی ہوتا ہے کہ سب سے بڑی جماعت حلیف اکٹھے کرنے کی بجائے یہ کوشش کرے کہ وہ ایک اقلیتی حکومت کے طور پر ہی کام کرتی رہے اور قانون سازی کے وقت ہر بل پر نئے سرے سے ثوسری جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

اگر ان میں سے کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو تو پھر پارلیمنٹ تحلیل کر دی جاتی ہے اور نئے سرے سے انتخابات ہوتے ہیں۔
کیا برطانیہ میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہے

دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایسا 1929 میں ہوا جب لیبر پارٹی نے 287 اور ٹوری پارٹی نے 260 نشستیں جیتیں جبکہ 59 نشستیں لبرل پارٹی کے ہاتھ لگیں۔

جنگ کے بعد 1974 میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت بنی جب لیبر پارٹی نے 301 اور ٹوری پارٹی نے 297 نشستیں حاصل کیں۔ اس معمولی فرق کے پیش نظر ٹوری پارٹی نے اقلیتی حکومت کے طور پر کام کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی اور جلد ہی دوبارہ انتخابات ہوئے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوران حکومت ایک جماعت ضمنی انتخابات کے نتیجے میں اپنی اکثریت کھو بیٹھتی ہے جیسا کہ 1996 میں جان میجر کی حکومت کے ساتھ ہوا۔

لیکن برطانیہ کی لمبی انتخابی تاریخ میں معلق پارلیمنٹ یا اقلیتی حکومتوں کی چند ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ عام طور پر برطانوی عوام کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت کے ساتھ چنتے ہیں۔
مخلوط حکومتیں کئی ملکوں میں نظر آتی ہیں تو برطانیہ میں انہیں کیوں پسند نہیں کیا جاتا؟

برطانوی سیاست پر تاریخی طور پر دو سیاسی جماعتوں کا غلبہ رہا ہے گو کہ یہ روایت شاید اب بدل رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ تو یہاں کا انتخابی نظام ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسرائیلی انتخابی نظام کی ضد ہے جس میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر جماعتوں کو ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔

متناسب نمائندگی کا نظام کسی ایک مسلے پر مرکوز جماعتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یوں اکثریتی جماعت کو کئی چوٹی جماعتوں سے مل کر حکومت بنانا ہوتی ہے۔ اس نظام میں کسی ایک جماعت کے لیے اکثریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

اس کے برعکس برطانوی نظام کا دارومدار انتخابی حلقوں پر ہوتا ہے۔ اس نظام میں چھوٹی جماعتیں پورے ملک میں تو ہزارہا ووٹ حاصل کر لیتی ہیں لیکن حلقے نہ جیتنے کی بنا پر ان کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔

اس نظام میں کسی ایک جماعت کا انتخابات جیتنا عین ممکن ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment