Friday, April 9, 2010

قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اٹھارویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری دے دی


پاکستان کی قومی اسمبلی نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے اور اب یہ بل منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں دو دن کی بحث کے بعد جمعرات کو اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے حق میں دو سو بانوے ووٹ پڑے جبکہ کسی نے اس کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم کے بل کو شق وار منظور کیا تھا

حتمی ووٹنگ کے بعد سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ تین سو بیالیس میں سے دو سو بانوے اراکین نے حق میں ووٹ دیا اور چونکہ اس بل کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا اس لیے یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا جاتا ہے۔

اس سے پہلے قومی اسمبلی میں جب آئینی بل کی شقوں کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو سپیکر کی جانب پہلے ہر شق کا اعلان کیا جاتا اور اس کے بعد اراکین اسمبلی کھڑے ہو کر اس کے حق میں ووٹ دیتے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کی شق وار منظوری میں اکثریت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروائی جانے والی سترہویں آئینی ترمیم اور لیگل فریم ورک آرڈر یا ایل ایف او کے خاتمے کے حق میں ووٹ دیا۔

اس شق کی منظوری کے بعد سترہویں آئینی ترامیم کی بیشتر شقیں ختم ہو گئی ہیں۔ ختم ہونے والی شقوں میں صدر اور گورنرز کا اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ اٹھارویں آئینی تریم کی شق نمبر دو کے حق میں دو سو اٹھاون اراکین اسمبلی نے ووٹ دیئے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں دو دن کی بحث کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کی شق وار منظوری دی گئی۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظور کی جانے والی شقوں میں شق نمبر تین بھی شامل ہے۔ اس شق کی منظوری کے بعد صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہو کر خیبر پختوانخواہ ہو جائے گا۔ اس شق پر سابق حکمران جماعت مسلم لیگ قاف کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

اس شق کے حق میں دو سو چونسٹھ اراکین نے ووٹ دیا جب کہ مسلم لیگ قاف کے صرف بیس اراکین نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کی شق پر ووٹنگ کے دوران ہزارہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے دو اراکین سردار مہتاب عباسی اور میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

صوبائی خودمختاری کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کردی گئیں۔

پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو منتقل کرنے کی منظوری دی ہے۔

صوبائی گورنر اسی صوبے کے رہائشی ہونے کی منظوری دی گئی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ قاف کے اراکین کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔گزشتہ روز بحث کے دوران مسلم لیگ (ق) کے اراکین نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کی کھل کر مخالفت کی۔ صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن شاہجان یوسف نے ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا تھا۔

مسلم لیگ قاف کی رکن کشمالہ طارق نے خواتین کی نشستیں بڑھانے اور سیاسی جماعتوں کو دس فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کے متعلق آئینی ترمیم پیش کی جو کثرتِ رائے سے مسترد کی دی گئی۔

شق نمبر اڑسٹھ میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے قیام کے تجویز کی بھی منطوری دے دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سینیٹر رضا ربانی نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں اٹھارویں ترمیم کا بل بحث کے لیے پیش کردیا تھا۔ اس دن اسمبلی کی معمول کی کارروائی روک کر آئینی ترمیم پر بحث شروع کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔

اس بارے میں حکومت اور حزب اختلاف نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اٹھارویں ترمیم کا بل منظور نہیں ہوتا اس وقت تک ایوان کی معمول کی کارروائی معطل رہے گی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے سپیکر سے مخاطب ہوتے کہا کہ یہ پیغام دیں کہ اب صرف آئین اور قانون کے تحت یہ ملک چلے گا اور کوئی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن ہمیں وہ فوج اچھی لگتی ہے جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

انھوں نے کہا کہ ہم کسی ایسی فوج کو قبول نہیں کریں گے جو اپنے ہی ملک پر قبضہ کرے جو پاکستان کے آئین اور قانون کو پامال کرے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایسی فوج کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی آئندہ کے کسی جرنیل کو کندھا دیں گے۔ انھوں نے کہ ’ہم ایک دفعہ مثال قائم کریں کہ بہت ہوگیا ہے (اینف از اینف) ۔‘

انھوں نے کہا آج ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا چاہیے اور اللہ سے عہد کریں کہ آئندہ کوئی سیاست دان کسی فوجی آمریت کو کندھا نہیں دے گا۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے وقت اس کا اعلان کیا اور قوم سے معافی مانگی اسی طرح سے دوسری جماعتیں بھی اگر قوم سے معافی نہ مانگیں مگر یہ فیصلہ کریں کہ کوئی سیاست دان اور کوئی پاکستانی فوجی آمریت کو کندھا فراہم نہیں کرے گا۔

انھوں نے کہا آج اہم دن ہے کیوں کہ آج سترہویں ترمیم کا کالا قانون ختم کرنے کے لئے اس ایوان کے تین سو اراکین متفق ہوئے اور اس کالے قانون کو ختم کیا۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی اور آج وزیر اعظم ان کی جماعت کے ساتھ اس ایوان کے تقریباً تین سو اراکین اکٹھے ہوئے اور ایک متفقہ آئین پر دستخط کیا۔

No comments:

Post a Comment