
صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور اور آس پاس کے اضلاع میں گزشتہ چند دنوں سے جاری دھماکوں نے ایک بار پھر صوبہ بھر میں کشیدگی کو جنم دیا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ شدت پسند ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔
حالیہ دھماکے اس لحاظ سے بھی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہیں کیونکہ عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ شاہد شدت پسندوں کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اب حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لیکن تیمرگرہ، سوات، کوہاٹ اور اب پشاور میں ہونے والے دھماکوں سے ظاہر ہوا کہ عسکریت پسندوں کا کنٹرول اور کمانڈ سسٹم بدستور فعال ہے اور وہ کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں بھی بظاہر کامیاب ہورہے ہیں۔
پشاور شہر میں ایک ہی دن میں دو دھماکوں سے پھر وہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو تقریباً پانچ چھ ماہ قبل تھی جب شہر میں شدید خوف وہراس تھا اور روزانہ دھماکے ہوتے تھے اور جس سے چند ہی دنوں میں شہر کے کچھ مقامات کھنڈرمیں بھی تبدیل ہوئے تھے۔
پیر کو کلِک پہلا دھماکہ جمرود روڈ پر پولیس پبلک سکول میں ہوا جس میں حکام کے مطابق ایک طالب علم بچہ ہلاک جبکہ سات زخمی ہوئے۔ اس دھماکے کے بعد یونیورسٹی روڈ پر قائم تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں اچانک خوف و ہراس پھیل گیا اور بچوں کے والدین سکولوں کی طرف بھاگنے لگے۔ پشاور شہر میں کسی سکول پر دن دھاڑے یہ اپنی نوعیت کا پہلہ حملہ تھا۔ اس دھماکے کی کوریج کےلیے میں بھی جائے وقوعہ پہنچ گیا تھا۔ میں نے خود وہاں دیکھا کہ بچوں کے ماں باپ کا برا حال تھا، دھماکے کی خبر سنتے ہی کوئی دفتر سے بھاگ کر آرہا تھا، کوئی گھر یا دکان سے افراتفری کے عالم میں وہاں پہنچ رہا تھا۔ ان چہروں سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنے لخت جگر کی ایک جھلک دیکھنے کےلیے کتنے بے چین ہیں۔ وہ بس انتہائی دردناک مناظر تھے۔
اس دھماکے کو چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ تاریخی قصہ خوانی بازار میں ایک خودکش حملہ کیاگیا جس سے پورے شہر میں فضا کشیدہ ہوگئی۔ دوسرا دھماکہ جب ہوا تو چند ہی منٹوں کے اندر پورا شہر جام سا ہوگیا، ہر کوئی محفوظ مقام کی جانب بھاگ رہا تھا۔ اس افراتفری کے عالم میں شہر کے زیادہ تر سڑکیں بلاک رہی۔
ان دھماکوں سے قبل کوہاٹ شہر میں دو روز تک شہر کو مسلسل دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا جس میں پہلا دھماکہ اورکزئی ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کے ایک رجسٹریشن مرکز میں ہوا جس میں ایک مقامی صحافی عظمت علی بنگش بھی ہلاک ہوئے جبکہ دوسرا دھماکہ بلی ٹنگ کے علاقے میں پولیس تھانہ پر کیا گیا۔ دونوں دھماکوں میں پولیس کے مطابق پچاس کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔
پشاور میں دھماکے ایسے وقت ہوئے جب اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری اٹھارویں ترمیم کے بل پر دستخط کرکے اس کو آئین کا حصہ بنا رہے تھے۔ اس صوبہ کے عوام کےلیے اس ترامیمی بل پر دستخط اس لیے بھی اہم تھی کیونکہ صدر کی طرف سے منظوری کے بعد سے سرکاری ریکارڈ میں باقاعدہ طورپر صوبہ خیبر پختون خواہ لکھا جائے گا۔
گزشتہ پانچ چھ ماہ سے یہ بات بار بار دہرائی جارہی ہے کہ شدت پسند آخری سانسیں لے رہے ہیں، ان کاخاتمہ ہوگیا ہے، وہ مزید کچھ نہیں کرسکتے وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے اعلانات میڈیا سے بھی اتنی تیزی سے پھیل رہی تھیں کہ عوام کو ایک قسم کا احساس ہوگیا تھا کہ شاہد عسکریت پسند اب دوبارہ کارروائیاں نہیں کرسکتے۔ لیکن کچھ ہفتوں سے شدت پسندوں نے جس دیدہ دلیری سے اہم شہروں میں حملے کیے ہیں اس سے تو بظاہرہوتا ہے کہ وہ اب بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور ان کے آپس میں رابطے بھی بحال نظر آتے ہیں۔
نہ جانے کب تک یہ شہر پٹتا رہے گا۔ آخر کب تک، اس شہر کی ایک نسل تو ان ہی دھماکوں اور حملوں میں جوان ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment