Saturday, April 3, 2010

اٹارنی جنرل انور منصور خان کے انتالیس سالوں میں چار استعفے

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے سبکدوش ہونے والے اٹارنی جنرل انور منصور خان کسی عہدے سے پہلی مرتبہ مستعفی ہوئے ہیں۔ پاکستان فوج کی ملازمت سے لیکر آج تک انتالیس سالوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں وہ چار مرتبہ استعفے دے چکے ہیں۔

موجودہ حکومت میں وہ تیسرے اٹارنی جنرل ہیں جو حکومت اور عدلیہ میں جاری سرد جنگ کی وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے، اس سے قبل جسٹس ریٹائرڈ عبدالقیوم اور لطیف کھوسہ بھی یہ راہ اختیار کر چکے ہیں۔

انور منصور خان نے اپنے کیریئر کی ابتدا بطور فوجی کیپٹن کے کی اور وہ انیس سو اکہتر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ انیس سو تہتر میں انور منصور خان فوج نے فوج سے استعفیٰ دیا تاہم انہیں اکتوبر سنہ چوہتر میں فوج سے فارغ کیا گیا۔

ان کے ساتھی وکیل اور ہائیکورٹ بار کے سابق صدر ابرار حسن کے مطابق سقوط ڈھاکہ کے وقت انور منصور خان بنگال میں تھے جہاں سے انہیں جنگی قیدی بنا کر بھارت لے جایا گیا تھا۔

انور منصور خان کے والد منصور خان سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور منصور نے بھی اسی پیشے کو اپنایا اور انیس سو اکیاسی میں وکالت کی ابتدا کی۔ انیس سو تراسی میں انہیں ہائی کورٹ کے لیے چنا کیا گیا جبکہ سنہ دو ہزار میں انہیں سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا مگر اگلے ہی سال وہ مستعفی ہوگئے۔

بعد میں دو ہزار دو میں انہیں سندھ کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا مگر اس عہدے سے بھی انہوں نے دو ہزار سات میں استعفٰی دے دیا۔ اپنے اس استعفے کی بنیاد انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے قانونی رائے نہ لینا بتایا تھا، جب کہ بعد میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ ان کے سندھ کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم سے اختلاف پیدا ہوگئے تھے۔

استعفے کے بعد انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جاری کیے گئے عبوری آئینی حکم ( پی سی او ) کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اسے سپریم کورٹ کی جانب سے تین نومبر کو جاری کردہ حکم نامے کے متصادم قرار دیا تھا۔

انور منصور خان پاکستان بار، سندھ ہائی کورٹ بار اور کراچی بار کے رکن تو رہے تاہم انہوں نے زیادہ تر خود کو بار کی سیاست سے دور رکھا۔ تاہم رواں سال وہ سندھ ہائی کورٹ بار کی صدرات کے لیے رشید رضوی کے مدمقابل تھے تاہم انہیں اس الیکشن میں شکست ہوئی۔

پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس کی تیاری، پاکستان میں اور اسلامی بینکنگ رائج کرانے میں بھی انور منصور خان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے انور منصور خان کے ریفرنس پر سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس افضل سومرو کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف دائر کارروائی کی سفارش کی تھی۔

جمعہ کے روز جب تمام سیاست دانوں اور عوام کی نظریں پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی آئینی ترامیم پر تھیں ایسے میں اٹارنی جنرل کی استعفے کی خبر سامنے آئی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انور منصور خان عدالت میں کئی بار اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے تھے مگر انہوں نے ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا جب حکومت یہ ثابت کر رہی تھی کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔

No comments:

Post a Comment