پاکستان کی پارلیمان ان ترامیم کو ختم کرنے جارہی ہے جو سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے آئین میں متعارف کی تھیں
..............................................................
اس سے پہلے سنہ انیس ستانوے میں نواز شریف نے بینظیر بھٹو کی بھرپور حمایت کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی ان ترمیم کو آئین سے خارج کردیا تھا جس کے تحت صدر پاکستان کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کا صوبدایدی اختیار تھا۔
پاکستان کا موجودہ آئین چودہ اگست انیس سو تہتر کو نافد کیاگیا تھا تاہم ابتدائی پانچ برسوں میں اس میں سات ترامیم کردی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنے اقتدار کے دوران آئین میں سات ترامیم کیں۔ان کے بعد نوازشریف ہیں جہنوں نے اپنے دو ادوار میں چھ مرتبہ ترمیم کی کوشش کی جن میں وہ پانچ کو منظور کراسکے جبکہ ایک ترمیم واپس لے لی گئی تھی۔
محمد خان جونیجو کی تین ترامیم میں سے دو منظور ہوئیں جن میں ایک آٹھویں ترمیم بھی شامل ہے جبکہ ایک ترمیم کوغیر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔میر ظفر اللہ خان جمالی نے آئین میں ایک ترمیم منظور کرائی جس کو ستروہویں ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بینظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں تاہم ان کے دور میں آئین میں کوئی ترمیم نہ کی جاسکی۔
............................................
پاکستان کے آئین میں پہلی ترمیم انیس سو چوہتر میں کی گئی اور اس ترمیم کے ذریعے اکہتر میں علیحدہ ہونے والے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے طور تسلیم کیا گیا تھا۔کچھ ماہ بعد ہی آئین میں دوسری ترمیم کی گئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
............................................
تیسری ترمیم فروری پچھتر میں ہوئی جس کے بعد صدر کی طرف سے ہنگامی حالت کے نفاذ کی معیاد کو بڑھا غیر معینہ مدت کردیا گیا جبکہ اسی ترمیم کے ذریعے حراست میں لیےگئے افراد کے حقوق کو کم کرکے حکومت کے اختیار کو بڑھا دیا گیا۔
............................................
چوتھی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے اختیارات کو کم کیاگیاجبکہ قومی اسمبلی میں اقلتیوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور پنجاب اسمبلی میں یہ تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کردی گئی۔
............................................
پانچویں ترمیم میں جہاں سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس کو الگ الگ کیاگیا وہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ہائی کورٹس چیف جسٹسز کے عہدے کے لیے پانچ اور چار سال کی معیاد مقرر کی گئی۔
............................................
آئین میں چھٹی ترمیم اس وقت کی گئی کہ جب قومی اسمبلی کا عام انتخابات سے قبل آخری اجلاس ہورہا تھا اور اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی معیاد کو اس طرح بڑھایا گیا کہ اگر کسی چیف جسٹس کے عہدے کی مقررہ معیاد پوری نہیں ہوتی اور وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت تک بطور چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کریں گے جب تک ان کے عہدے کی معیاد پوری نہیں ہو جاتی۔ اس ترمیم سے چیف جسٹس یعقوب علی خان کو فائدہ ہوا جو چیف جسٹس بننے لگ بھگ دو سال ہوئے تھے اور وہ ریٹارمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے۔ جسٹس یعقوب علی خان ذوالفقارعلی بھٹو کے خاصے قریب سمجھے جاتے تھے۔
............................................
ساتویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو یہ سہولت مل گئی کہ اگر کسی مرحلہ پر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت ہو تو وہ اس مقصد کے لیے ریفرندم کے ذریعے عوام سے رجوع کرسکتے ہیں۔ بعض حلقوں نے اس ترمیم کو پارلیمانی نظام کی نفی بھی کہا۔
............................................
پانچ جولائی ستتر کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کردیا اور مارچ انیس سو پچاسی میں آر سی او یعنی حکم برائے بحالی آئین کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے اسے بحال کردیا۔
آر سی او کے تحت غیر آئینی طریقہ سے جو ترامیم شامل کی گئی ان میں صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار، عسکری سربراہوں کی تقرری کی اختیار وزیر اعظم سے صدر کو منتقلی، رکن بننے کے لیے اہلیت کی نئی شرائط، قومی سلامتی کونسل کا قیام سمیت دیگر ترمیم شامل تھیں۔
............................................
پچاسی میں بننے والی پارلیمان نے جنرل ضیاء کی ترمیم معمولی تبدیلی کے بعد اس آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنادیا۔ اس ترمیم میں جہاں قومی سلامتی کونسل کو قبول نہیں کیا گیا وہاں جنرل ضیاء کا نام بطور صدر آئین میں درج کیاگیا۔
آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کے اخیتار کے باعث چار حکومتیں اپنی آئینی مدت سے پہلی ختم ہوگئں
............................................
نواز شریف دور میں خواتین کی مخصوص نسشتوں کی بحالی کے لیے پیش کی جانے والی گیارہویں ترمیم واپس لے لی گئی تھی جبکہ بارہویں ترمیم کے ذریعے سنگین جرائم کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی گئیں۔
............................................
نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے آٹھویں ترمیم کے اس حصہ کو ختم کردیا جس کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے اور عسکری قیادت کا چناؤ کا صوبدایدی اخیتار حاصل تھے ۔ نواز شریف نے چودھویں کے ذریعے ارکان اسمبلی کی وفاداری تبدیل کرنے اور ہارس ٹریدنگ کو روکنے کی کوشش کی۔ ان دونوں ترامیم نے بیظیر بھٹو نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا۔
............................................
پندرھویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف نے اسلام کا نام لے کر قطعی اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی یہ ترمیم قومی اسمبلی نے منظور کردی لیکن سینٹ میں واضح اکثریت کی وجہ سے پیش کی گئی اور اسی دوران نواز شریف حکومت فوجی ایکشن کے ذریعے ختم ہوئی۔ نواز شریف نے سولہویں ترمیم کے لیے کوٹہ سٹم کی معیاد بیس برس سے بڑھا کر چالیس سال کردی۔
............................................
جنرل پرویز مشرف نے اپنے فوجی ایکشن کے بعد آئین معطل کردیا اور سنہ دو ہزار دو میں جب آئین بحال کیا گیا تو اس میں لیگل فریم ورک آردر یا ایل ایف او کے ذریعے ترامیم کی گئیں جس کے بعد صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے اور فوجی سربراہوں کی تقرری کا اختیار دوبارہ مل گیا جبکہ قومی کونسل کو دوبارہ قائم کیا گیا ۔ دو ہزار دو میں وجود میں آنے والی اسمبلی نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ملکر ایل ایف او کی ترامیم کو ستردھویں کے آئین کا حصہ بنایا جسے اب پارلیمان ختم کررہی ہے
No comments:
Post a Comment